• Twitter
  • Facebook
  • Google+
  • Instagram
  • Youtube

Tuesday, April 17, 2012

غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کاضمیر

علامہ اقبال نے اس مصرعے میں ایک بہت بڑی حقیقت کو بیان فرمایاہے ۔قوم غلام کیاہوتی ہے، دیکھتے ہی دیکھتے اس کے اطوار بدلتے چلے جاتے ہیں ۔ جو ناخوب ہوبتدریج وہی خوب ہوتاجاتاہے ۔اس کی تہذیب وثقافت ،اس کی عادات ورسومات میں نیا رنگ جھلکنے لگتا ہے ۔ چال ڈھال ،رفتار گفتارمیں تبدیلی آجاتی ہے ۔رنگ ڈھنگ ہی کچھ اور ہوجاتاہے ۔اٹھنے بیٹھنے ،کھانے پینے ،رکھ رکھائو،وضع قطع یہاں تک کہ غمز واشارہ کے قاعدے ضابطے بدل جاتے ہیں ۔پسند وناپسند کا معیار دوسراہوجاتاہے ۔ادب پر اجنبی رنگ چڑھ جاتاہے ۔وہ ادب معیاری سمجھاجاتاہے جو فاتح قوم کے ادب کاچربہ ہو،حوالے کے لیے انہی ادیبوں کانام اورکاکم پیش کیا جاتاہے جو غالب قوم سے تعلق رکھتے ہوں ،زباں بل کہ ہرچیز میں پیوند لگ جاتاہے ۔غلامی ہے ہی ایک پیوند کاری جس میں دیسی آم قلمی آم کی خصوصیات اختیار کر لیتا ہے ۔دور غلامی کے انداز واطوار دراصل ایک دوسری غلامی کی نشان دہی کرتے ہیں،وہ ہے فکری غلامی ،فکرجب غلام ہوجائے تو شاہین کرگس اور شیر گیڈر کا روپ دھار لیتے ہیں۔اس غلامی کا ایک رخ اور بھی ہے جو تخریب نہیں تعمیر ہے ،جو روح کی سرشاری ،اعلی اخلاق کے حصول اورآخرت کی آبادی سے عبارت ہے جو ممولے کو شہباز سے لڑاتی ہے ،یہاں اس رخ کی بات ہورہی ہے جو ملت کا ننگ ،دین کی بربادی اوردنیاکی رسوائی ہے ۔مسلمانوںپرایسے کئی ادوار آئے جن میں غیر اقوام نے ان پر تسلط جما لیامگر وہ شخصی اور جغرافیائی غلامی تھی ،جلد ہی وہ قومیں مسلم فکر ونظر کی اسیر ہوگئیں انہوں نے گھٹنے ٹیک دیے ۔اقبال کے الفاظ میں پاسباںمل گئے کعبے کوصنم خانے سے مغربی اقوام نے بھی مسلم تہذیب اور علم وفن سے بہت کچھ حاصل کیا۔اسی کے سہارے انہوں نے گھٹنوں گھٹنوں چلناسیکھایہاں تک کہ دوڑنے لگ گئیں ۔مسلمانوں سے انہوں نے جوکچھ حاصل کیا اس پر اضافات کرتے ہوئے ایک طرف علم ونظر کے نئے دیے جلائے اوردوسری طرف تہذیب وثقافت کے متضاد راستوں پرچل نکلے ۔یہ بے خدا وبے دین ننگی اورمادی تہذیب تھی جس کے پہلوئوں میںاگر سائنس اور ٹیکنالوجی کے نئے آفتاب اور جنگ وجدل کے نئے سامان تھے تو اس کے پس پشت شاطر ومکار ذہن کام کر رہاتھا۔سامنے وسیع مسلم حکومتیں تھیں شاداب زرخیز اور مال وزر سے لدے ہوئے مسلم علاقے جن کے وارث اپنا اصلی مقصد بھول کرآپس میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھے ۔مسلمانوں کے سیاسی مراکز شکست وریخت کاشکار تھے ۔یہ قومیں ان علاقوں پر یوں حملہ آوروہوئیں جیسے سرد راتوں میں کہر اترتی ہے ۔تھوڑے ہی عرصے میں مسلمان پٹ گئے ۔مغربی قوموں نے انہیں اپنی غلامی میں لے لیا ۔مگر اب کی بار معاملہ دوسراہوگیا بجائے اس کے کہ یہ اقوام مسلمانوں کااثر قبول کرتیں الٹا مسلمان ان کے پنجہ ء تہذیب میں گرفتارہوگئے۔فکری غلامی کے نتیجے میں غلام قوم کے اند ر عموما چار طبقے پیدا ہوتے ہیں ایک وہ جو تین میں ہوتاہے نہ تیرہ میں ،دوسرا وہ جو حریت فکرکاعلم بردار اورآزادی کا متوالاہوتاہے جس کی غالب قوم سے نفرت اس انتہاکو پہنچ جاتی ہے کہ وہ اس سے متعلقہ کسی چیز کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا،اس بارے میں وہ انتہائی حساس ہوجاتاہے ،تیسرا وہ جو بیچ کی راہ چلتا ہے، چوتھا وہ جوغالب قوم پریوں ریچھتا ہے جیسے مکھی شیرے میں گرتی ہے مگراسی کے ساتھ وہ قوم کو بھی نہیں بھولتاالبتہ اس کی کج فکر اسے یہی بتاتی ہے کہ قوم کے درد کا درماں اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے میں ہے ۔پانچواں طبقہ جی حضوریا،مفاد پرست ،ٹوڈی ،خود غرض ،خوشامدی ،چاپلوس ،شاطر ومکار اور قومی غیرت وحمیت سے خالی ہوتاہے فاتح قوم کوتمام تر پیش رفت کے لیے یہی اپنے کاندھے پیش کرتاہے۔بدلے میں اسے جاگیریں ملتی ہیں اور لاٹ صاحب ،نواب بہادر،سر اور ملک صاحب کے خطابات سے نوازا جاتاہے ۔مغربی قوتوں نے پہلے تو مسلمانوں کی جغرافیائی حدود پر قبضہ کیا پھررفتہ رفتہ مسلمانوں کی فکر پر بھی غلبہ حاصل کرلیا ۔غلامی کا حدود اربعہ صرف برصغیر تک ہی محدود نہیں*بل کہ ہر اس خطے تک پھیلاہوا ہے جو براہ راست ان کے قبضے میں*رہاخطہ ء عر ب کو چھوٹی چھوٹی ٹکریوں*میں*بانٹنا انہی ٹوڈیوں*کی وجہ سے ممکن ہوااردن ویمن کی بادشاہتیں*امارات کی ریاستیں*اورعراق ومصروشام کے ڈکٹیٹر اسی نسل کے شاید اآخری آثار ہیں*جو جنگ عظیم اول سے پہلے انگریز نے تیار کی تھی ۔آج کے مسلمان بدترین غلامی کاشکار ہیں ،جغرافیائی طور پر گوآزاد ہوچکے ہیں مگر فکری طور پر ان کے غلام ہی ہیں، اسی غلامی کا نتیجہ معاشی ،معاشرتی ،تہذیبی اور عسکری غلامی کی صور ت میں برآمد ہوا ہے۔ ایک مصیبت تو یہ ہے دوسر ی مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق سام راجی قوتیںجاتے جاتے ہمیں کاٹھے انگریزوں کا تحفہ دے گئیں ۔اُن کی نوازشات سے لاٹ نواب اورصاحب بہادر وغیرہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے جب کہ عام آدمی ان کے سامنے چابی کا کھلونا بن کررہ گیا۔یہ لوگ جنہوں نے سرکار برطانیہ اور انکل سام کی چوکھٹ کو اپنا قبلہ وکعبہ بنارکھا ہے انسانوں کی اس برادری سے تعلق رکھتے ہیں جو شاہ سے بڑھ کرشاہ کی وفادار ہوتی ہے ۔کہتے ہیں کسی آفیسر نے سپاہی کوکہا اوئے کھوتا گبھن ایسپاہی نے ایڑیاں بجائیں، سیلوٹ جھاڑا اور کہا یس سر اور دے گا بھی دو ہم ایسے لوگوں*یہ امید رکھیں کہ عالمی فورم پر یہ ہماری نمائندگی کریں گے تو بابا یہ ہماری بھول ہے ،جنہیں*اقتداراس شرط پرملے کہ آنریبل ! برسراقتدارآنے کے بعدآپ نے وہی پالیسی اپنانی ہے جو ہم کہیں گے ہاں قوم کو تسلی دلاسہ دینے کے لیے ہم آپ کو ’’اُتوں اُتوں رولاپانے ‘‘کی اجازت دیتے ہیں وہ کیا قومی خواہشات کی ترجمانی کریں گے۔لہذا قوم کووہی لالی پاپ دیاجاتاہے جو ’’سرکار ‘‘کی مرضی ہوتی ہےاور ہر قومی معاملے میں ملی غیرت وحمیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وہی بولااورکیاجاتاہےجو ’’ آقائو ں‘‘کی پالیسی ہوتی ہے ۔قوم کے سپوتوں پر بارود برساناہو یا مائوں کے جگرگوشے قانون کی چھتری تلے یوں غائب کرنے ہوں کہ ان کا سراغ بھی نہ ملے ،داڑھی پگڑی کو دہشت گردی کی علامت بناناہویا روشن خیالی کا پرچار کرناہو ،مسلمانوں کوان کے حوالے کرکے ان کے دام کھرے کرنے ہوں*یا مساجد ومدارس پر کمانڈوایکشن کرناہو ،پڑوسی مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجرگھونپناہو یا اپنے وطن کو اپنے ہی لوگوں کے لیے میدان جنگ بناناہو، قوم کے ہیروکو زیروکرناہو یا توہین رسالت کے مجرموں کوراتوں رات آقاکے چرنوں مین بھجواناہو یہ اوراس طرح کے دیگر معاملات’’باہمی مشاورت ‘‘سے طے کیے جاتے ہیں*اورمشیر نیویارک تل ابیب لند ن اور دہلی کامرکب ہوتے ہیں ۔تما م مسلم خطے ان کی کالونی ، مرد ان کے غلام اور عورتیں ان کی لونڈیاں ۔ آزادی کے نام پر ہمیں غلامی میں دھکیل دیاگیا۔ان کے لیے کوئی نوگوایریانہیں ،جہاں چاہیں جائیں ،کوئی روک ٹوک نہیں*جو چاہیں ادھرسے لے جائیں اورجو چاہیں یہاں لائیںنہ رکاوٹ نہ چیکنگ سب ڈیوٹی فری ،کنٹینروں کے کنٹینر نیٹوکا سامان و تیل یہاں*سے جاتاہے ،ان کاخرچ قوم پرٹیکس لگا کر پوراکیا جاتاہے ۔جس کا جی چاہتاہے ہمارے داخلی اور مذہبی معاملات کے متعلق ہمیں سبق پڑھانا شروع کردیتاہے،وہ جب چاہیں*ہمارے جذبات مجروح کریں*،ہماری خودمختاری کو چیلنج کریں،ہمارے شہریوں کو خون میں نہلائیں*،کسی ایمل کانسی اور کسی عافیہ صدیقی کو پکڑ کرلے جائیںکھلی اجازت ہے انہیں*روکنا للکارناتو درکنا ر ہم اتنااحتجاج بھی نہیںکرسکتے جو دم پر کسی کا پائوں آجانے سے کتے کا پلاکرتاہے۔ بل کہ ہمارا کام سر جھکا کر ان کا لیکچر سننا اور اس بات کا یقین دلانا ہے کہ ہم یہ سبق پوری طرح ذہن نشیں کرچکے ہیں ،مائی باپ ابھی ہم اس ترقی یافتہ اور روشن خیا ل لبرل معاشرے میں رہنے کے قابل نہیں اس کے لیے برسوں ہمیں آپ کی جوتیاں سیدھی کرنی پڑیں گی اور آپ کی اطاعت کا دم بھرنا پڑے گا۔غلامی قوم کو بزدل بنادیتی ہے ۔ قوم پراس کے اثرات کیا ہوتے ہیں،*اس کے لیےقرآن کی روشنی میں*قوم موسٰی کے احوال مطالعہ کیجئے ۔ پہلے تووہ حضرت موسٰی کا ساتھ دینے کے لیے تیارنہ تھے ،اس پر اآمادہ ہوئے تو بات بے بات موسٰی کو طعنہ دینے لگے کہ تو نے ہمیں*پھنسا دیا ، تیری وجہ سے ہم پر یہ مصیبت آگئی ۔آپ قوم کولے کر نکلے ،بحرقلزم پر پہنچے ،فرعون بھی تعاقب میں*لشکرسمیت آپہنچا،سامنے دریا ،پیچھے فرعونی لشکر،فوراکہنے لگے انالمدرکون ہم پکڑے گئے۔ وہاں*سے اللہ نے نجات دی، پارہوتے ہی قوم عمالیق پر سے گذر ہواجو بت پرست تھے تو کہنے لگے اے موسٰی اجعل لنا الھاکما لھم الھۃ*ہمیں*بھی انہی کی طرح*کا خدا بنادو ۔آپ کوہ طور پر گئے تو آپ کی غیر موجودگی میں*طلسم سامری کی فسوں*کاری سے بچھڑے کی پوجا کرنے لگے ۔آپ نے فلسطین پر حملہ کرکے آبائی وطن آزاد کرانے کا حکم دیا تو کہنے لگے یموسٰی ان فیھا قوما جبارین وانالن ندخلھاحتی یخرجو امنھا توبہ توبہ وہاں*کے لوگ تو بہت سخت ہیں*ان کے ہوتے ہم کبھی وہاں*نہیں*جائیں*گے۔ اللہ کی طرف سے حضرت یوشع بن نون نے یہ مژدہ سنایا کہ تم چلوتو سہی تمہیں*ہی غلبہ حاصل ہوگا تو جواب دیا کبھی نہیں فاذھب انت وربک فقاتلا موسٰی تم اورتیرارب جاکرلڑیں*ہم تو یہیں*رہیں*گے آخر فیصلہ کیا گیا کہ چالیس سال تک انہیں*وادئ تیہ میں*رکھا جائے گا اس سے پہلے انہیں*تکوینی طور پر یہاں*سے باہر نکلنے کی اجازت نہیںہوگی،*کیوں*؟ تاکہ اس پرانی نسل کی جگہ نئ نسل لے لے اس پر سے غلامی کے اثرات زائل ہوجائیں*اوراس صحرامیں*جفاکشی کی زندگی گذارتے ہوئے یہ قوم قوم صحرائی بن جائے تاکہ مقاصد فطرت کی نگہ بانی کرسکے شایدہمارے لیے بھی کسی ایسے ہی تیہ کا فیصلہ مقدر ہے ۔

0 comments:

Contact

Get in touch with me


Adress/Street

Nagpur Maharashtra India

Phone number

+(91) 937 005 9541

Website

www.irshadkha.in